Iqbal
Tuesday, 6 December 2011
اے طلب گار درد پہلو! ميں ناز ہوں ، تو نياز ہو جا
ميں غزنوي سومنات دل کا ، تو سرا
پا اياز ہو جا
نہيں ہے وابستہ زير گردوں کمال شان سکندري سے
تمام ساماں ہے تيرے سينے ميں ، تو بھي آئينہ ساز ہو جا
غرض ہے پيکار زندگي سے کمال پائے ہلال تيرا
جہاں کا فرض قديم ہے تو ، ادا مثال نماز ہو جا
نہ ہو قناعت شعار گلچيں! اسي سے قائم ہے شان تيري
وفور گل ہے اگر چمن ميں تو اور دامن دراز ہو جا
گئے وہ ايام ، اب زمانہ نہيں ہے صحرانورديوں کا
جہاں ميں مانند شمع سوزاں ميان محفل گداز ہو جا
وجود افراد کا مجازي ہے ، ہستي قوم ہے حقيقي
فدا ہو ملت پہ يعني آتش زن طلسم مجاز ہو جا
يہ ہند کے فرقہ ساز اقبال آزري کر رہے ہيں گويا
بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبار راہ حجاز ہو جا
No comments:
Post a Comment
Newer Post
Older Post
Home
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment