Friday 16 December 2011

Kuch aisa sakoot ka fasoon hai Neckar ka kharam bhi sakoon hai

دريائے نيکر 'ہائيڈل برگ ' کے کنارے پر
ايک شام
خاموش ہے چاندني قمر کي
شاخيں ہيں خموش ہر شجر کي
وادي کے نوا فروش خاموش
کہسار کے سبز پوش خاموش
فطرت بے ہوش ہو گئي ہے
آغوش ميں شب کے سو گئي ہے
کچھ ايسا سکوت کا فسوں ہے
نيکر کا خرام بھي سکوں ہے
تاروں کا خموش کارواں ہے
يہ قافلہ بے درا رواں ہے
خاموش ہيں کوہ و دشت و دريا
قدرت ہے مراقبے ميں گويا
اے دل! تو بھي خموش ہو جا
آغوش ميں غم کو لے کے سو جا
_______
AN EVENING
On the river Neckar's banks, Heidelberg, Germany
The moon's light is silent
The branches of every tree are silent
The songsters of the valley are silent
The green trees of the mountain are silent
Nature has become unconscious
It is sleeping in the night's lap
Some such spell of serenity exists
That Neckar's flow is also serene
The caravan of stars is silent
The caravan is moving without the bell
Silent are the mountains, forest, river
As if Nature is absorbed in deep meditation
O Heart! You should also become silent
Taking grief in your lap go to sleep

Saturday 10 December 2011

علم و عشق از بال جبریل
علم نے مجھ سے کہا عشق ہے ديوانہ پن
عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمين و ظن
بندہ تخمين و ظن! کرم کتابي نہ بن
عشق سراپا حضور، علم سراپا حجاب!
عشق کي گرمي سے ہے معرکہء کائنات
علم مقام صفات، عشق تماشائے ذات
عشق سکون و ثبات، عشق حيات و ممات
علم ہے پيدا سوال، عشق ہے پنہاں جواب!
عشق کے ہيں معجزات سلطنت و فقر و ديں
عشق کے ادني غلام صاحب تاج و نگيں
عشق مکان و مکيں، عشق زمان و زميں
عشق سراپا يقيں، اور يقيں فتح باب!
شرع محبت ميں ہے عشرت منزل حرام
شورش طوفاں حلال، لذت ساحل حرام
عشق پہ بجلي حلال، عشق پہ حاصل حرام
علم ہے ابن الکتاب، عشق ہے ام الکتاب!

Tuesday 6 December 2011

 
 
 
اے طلب گار درد پہلو! ميں ناز ہوں ، تو نياز ہو جا

ميں غزنوي سومنات دل کا ، تو سراپا اياز ہو جا


نہيں ہے وابستہ زير گردوں کمال شان سکندري سے

تمام ساماں ہے تيرے سينے ميں ، تو بھي آئينہ ساز ہو جا


غرض ہے پيکار زندگي سے کمال پائے ہلال تيرا

جہاں کا فرض قديم ہے تو ، ادا مثال نماز ہو جا


نہ ہو قناعت شعار گلچيں! اسي سے قائم ہے شان تيري

وفور گل ہے اگر چمن ميں تو اور دامن دراز ہو جا


گئے وہ ايام ، اب زمانہ نہيں ہے صحرانورديوں کا

جہاں ميں مانند شمع سوزاں ميان محفل گداز ہو جا


وجود افراد کا مجازي ہے ، ہستي قوم ہے حقيقي

فدا ہو ملت پہ يعني آتش زن طلسم مجاز ہو جا


يہ ہند کے فرقہ ساز اقبال آزري کر رہے ہيں گويا

بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبار راہ حجاز ہو جا

Saturday 3 December 2011

Waza'a mein tum ho nisari tau tamadun mein hanood Yeh musalman hein! jinhein dekh kar ,

iqbal




شور ہے، ہو گئے دنيا سے مسلماں نابود
ہم يہ کہتے ہيں کہ تھے بھي کہيں مسلم موجود
وضع ميں تم ہو نصاري تو تمدن ميں ہنود
يہ مسلماں ہيں! جنھيں ديکھ کے شرمائيں يہود
يوں تو سيد بھي ہو، مرزا بھي ہو، افغان بھي ہو
تم سبھي کچھ ہو ، بتائو تو مسلمان بھي ہو

دم تقرير تھي مسلم کي صداقت بے باک
عدل اس کا تھا قوي، لوث مراعات سے پاک
شجر فطرت مسلم تھا حيا سے نم ناک
تھا شجاعت ميں وہ اک ہستي فوق الادراک

خود گدازي نم کيفيت صہبايش بود
خالي از خويش شدن صورت مينايش بود

ہر مسلماں رگ باطل کے ليے نشتر تھا
اس کے آئينہء ہستي ميں عمل جوہر تھا
جو بھروسا تھا اسے قوت بازو پر تھا
ہے تمھيں موت کا ڈر، اس کو خدا کا ڈر تھا

باپ کا علم نہ بيٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر قابل ميراث پدر کيونکر ہو

ہر کوئي مست مے ذوق تن آساني ہے
تم مسلماں ہو! يہ انداز مسلماني ہے
حيدري فقر ہے نے دولت عثماني ہے
تم کو اسلاف سے کيا نسبت روحاني ہے؟

وہ زمانے ميں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

مجھے آہ و فغان نيم شب کا پھر پيام آيا تھم اے رہرو کہ شايد پھر کوئي مشکل مقام آيا


مجھے آہ و فغان نيم شب کا پھر پيام آيا
تھم اے رہرو کہ شايد پھر کوئي مشکل مقام آيا

ذرا تقدير کي گہرائيوں ميں ڈوب جا تو بھي
کہ اس جنگاہ سے ميں بن کے تيغ بے نيام آيا

يہ مصرع لکھ ديا کس شوخ نے محراب مسجد پر
يہ ناداں گر گئے سجدوں ميں جب وقت قيام آيا

چل ، اے ميري غريبي کا تماشا ديکھنے والے
وہ محفل اٹھ گئي جس دم تو مجھ تک دور جام آيا

ديا اقبال نے ہندي مسلمانوں کو سوز اپنا
يہ اک مرد تن آساں تھا ، تن آسانوں کے کام آيا

اسي اقبال کي ميں جستجو کرتا رہا برسوں
بڑي مدت کے بعد آخر وہ شاہيں زير دام آيا

مومن پہ گراں ہيں يہ شب و روز دين و دولت ، قمار بازي!

مومن پہ گراں ہيں يہ شب و روز
دين و دولت ، قمار بازي!

ناپيد ہے بندہ عمل مست
باقي ہے فقط نفس درازي
...
ہمت ہو اگر تو ڈھونڈ وہ فقر
جس فقر کي اصل ہے حجازي

اس فقر سے آدمي ميں پيدا
اللہ کي شان بے نيازي

کنجشک و حمام کے ليے موت
ہے اس کا مقام شاہبازي

روشن اس سے خرد کي آنکھيں
بے سرمہ بوعلي و رازي

حاصل اس کا شکوہ محمود
فطرت ميں اگر نہ ہو ايازي

تيري دنيا کا يہ سرافيل
رکھتا نہيں ذوق نے نوازي

ہے اس کي نگاہ عالم آشوب
درپردہ تمام کارسازي

يہ فقر غيور جس نے پايا
بے تيغ و سناں ہے مرد غازي

مومن کي اسي ميں ہے اميري